صابر فریدی کی تصنیف آبشار کے رسم اجراء اور مشاعرہ۔

  


امن امان کمیٹی شجاعت گنج کانپور کے زیر اہتمام صابر فرید کے شعری مجموعہ آبشار کی اجراء کے موقع پر مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جوہر کانپوری نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ شعری مجموعہ آبشار ادب میں صرف ایک کتاب کا اضافہ نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی شعری منزلوں کا سفر طے کریں گے اور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ آصف صفوی نے کہا صابر فریدی کی شاعری پڑھتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ احساس کی روشنی نے انہیں وہ بصیرت عطا کی ہے کہ ان پر مشکل راہیں آسان ہو گئی ہیں۔مہمان خصوصی ڈاکٹر عمران صدر سماجوادی پارٹی کانپور شہر نے   آبشار کی اجراء پر مبارکباد پیش کی۔ مہمان اعزازی سرفراز احمد(بھارت ٹینری) رہے۔اس کے بعد مشاعرہ کا دور شروع ہوا۔نظامت اختر کانپوری نے کی اور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔چنندہ اشعار درج ذیل ہیں۔ 

زبان کہتی ہے سارا قصور اس کا تھا

ضمیر کہتا ہے کچھ ذمہ دار میں بھی ہوں

جوہر کانپوری-                            

بڑی ہمت ہے مٹی کے دۓ میں

یہ ہر گھر میں اجالا کر رہا ہے

جمیل خیرآبادی-                            

ہم زباں ہو کے جو کہتے تو اثر بھی ہوتا

ایک ہی بات کہی لوگوں نے تنہا تنہا

دستک آہٹ کچھ بھی نہیں

اف کتنا سناٹا ہے

ظہیر کانپوری-                            

چلے تو ساتھ تھے راہوں سے کٹ گئے ہم لوگ

نہ جانے کتنے قبیلوں میں بٹ گئے ہم لوگ

عالم سلطانپوری-                            

وہ اپنے دل کے رشتوں سے کبھی کھل کر نہیں ملتا

حقیقی زندگی میں بھی اداکاری نہیں جاتی

نورین فیض آبادی-                            

بیوی نہیں پسند تھی لانی پڑی مجھے

ابا کی اپنے لاج بچانی پڑی مجھے

شفیق ایوبی-                            

کہاں دیکھوں کہاں پر میں نہ دیکھوں

تری تصویر ہر دیوار پر ہے

نوری پروین-                            

انکے علاوہ حسرت صفی پوری، ندیم نیر،نفیس کانپوری، الیاس جلال آبادی، نور سلطانپوری، احمد دانش، عبد الجلیل خاں دانش، ذکا الله ثنا، سرتاج کانپوری، دلشاد کانپوری، انجم بسوانی،توحید احمد نے اپنا کلام پیش کیا۔حاضرین میں خورشید عالم، جانکی ورما،فہیم احمد رہے۔مشاعرہ کے اختتام پر امن امان کمیٹی کے صدر اسلم کارپینٹر نے تمام شعراء و سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اختتام کا اعلان کیا۔

No comments:

Post a Comment