حضرت وارث پاک علیہ الرحمہ سادگی اور خاکساری کے عظیم پیکر:حافظ فیصل جعفری

 تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام ہمایوں باغ میں عرس مخدوم اشرف سمنانی و عرس وارث پاک منعقد 

کانپور 8 ستمبر:تاریک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ سرکار امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسل پاک سے ہیں آپکی ولادت 708 ہجری کو ایران کے شہر سمنان میں ہوئی آپکی ولادت سے قبل سمنان کے کئی عظیم بزرگوں نے آپکی آمد کی خوشخبری سنائی آپ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں حکمرانی پشتوں سے چلی آ رہی تھی ساتھ ہی آپکے آبا و اجداد دین مصطفائی کے بھی بڑے پاسدار تھے آپکی تربیت حضرت خضر علیہ السلام نے فرمائی ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام ہمایوں باغ چمن گنج میں ہوئے عرس مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی و عرس وارث پاک میں تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے کیا انھوں نے مزید فرمایا کہ آپ 14 سال کی چھوٹی سی عمر میں آپ نے تمام علوم و فنون پر مکمل مہارت حاصل کر لی اور پھر باطنی فیض حاصل کرنے کیلئے ہندوستان تشریف لائے اور یہاں صوبہ بنگال میں حضرت شیخ علاء الدین رضی اللہ عنہ سے شرف بیعت حاصل کی سونا تو آپ پہلے ہی تھے مرشد کامل کی عطاؤں نے آپکو کندن بنا دیا والد کریم کے انتقال کے بعد لوگوں کی خواہش سے آپ تخت حکومت پر جلوہ فراز ہوئے اور کچھ سالوں بڑے ہی عدل و انصاف کے ساتھ حکومت فرمائی لیکن بعد میں آپ نے حکومت چھوڑکر فقیری اختیار کر لی اور ساری زندگی فقیری میں ہی بسر فرمائی دین پاک کی خدمت و اشاعت آپکا اصل شیوا تھا آپ تبلیغ اسلام کیلئے بڑی دور دور کا سفر فرماتے کتنے ہی گناہگار آپکی تبلیغ سے متاثر ہوکر تائب ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ نے آپکو ان کمالات سے نوازا تھا وہیں آپکا کرامتوں میں بھی کوئی ثانی نہیں تھا آپ سے ایک نہیں ہزاروں کرامتیں وجود میں آئیں اور انھیں کرامتوں کو دیکھکر لاکھوں غیر مسلم مذہب اسلام میں داخل ہوئے ایک بار کچھ شرارتی لوگوں نے آپکا امتحان لینا چاہا اور اسکے لئے یہ ترکیب نکالی کہ اپنے ہی درمیان سے ایک شخص کو تیار کیا کہ وہ مرنے کا ناٹک کرے اور ہم اس کے جنازے کو مخدوم اشرف کے پاس لے جاکر جنازہ پرھانے کو کہیں گے جیسے ہی وہ پہلی تکبیر کہکر نیت باندھیں تم کھڑے ہو جانا تاکہ ہم سب ملکر انکا مزاک اڑائیں یہ بدماش پوری پلاننگ کے ساتھ جب مخدوم اشرف کے پاس پہونچے تو پہلے آپ نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا لیکن جب ان َلوگوں نے اسرار کیا تو آپ جنازہ پڑھانے کیلئے تیار ہو گئے اور تکبیر کہکر نیت باندھ لی وہ لوگ اپنے آدمی کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگے لیکن وہ نہ اب اٹھا نہ تب جب جاکر دیکھا تو وہ واقعی مر چکا تھا سب لوگ آپ کے پاس آکر رونے لگے اور اپنی ساری حرکتوں کو بیان کرکے بہت شرمندہ ہوئے آپ نے سب کو معاف فرما دیا اور جب نگاہیں ناز اس مرے ہوئے شخص کی طرف اٹھائی تو حکم ربی سے وہ زندہ ہو گیا آپکا وصال 28 محرم الحرام 808 ہجری کو کچھوچہ شریف ضلع امبیڈکر نگر میں ہوا اور یہیں آپکا مزار مبارک ہے جہاں اللہ تعالیٰ آپکی برکتوں سے روگیوں کو شفا اور دکھیوں کو سکھ عطا فرماتا ہے انھوں نے مزید کہا کہ اس خاکدان گیتی پر بے شمار ولیوں نے جنم لیا جن کے دم قدم سے حضور علیہ السلام کا کامل اور مکمل دین اور شریعت ہم تک صحیح سلامت موصول ہو سکی ان ولیوں میں اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت بھی دی لیکن اگر ہم بات کریں صاحب عرس حاجی حافظ وارث علی شاہ کی جن کو زمانہ عالم پناہ کے لقب سے جانتا یے تو اللہ تعالی نے انہیں بڑا مرتبہ بخشا بڑی شانیں عطا کیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی زمانہ آپ کے دربار سے دامن مراد کو پا رہا ہے پھر وہ چاہے جس مذہب کا ہو بلا تفریق مذہب وملت ہر ایک گدا کو نوازنا آپ کا شیوہ بن چکا ہے آپ کی ولادت 1234 ہجری مطابق 1819ء کو دیوا ضلع بارہ بنکی (یوپی)  میں ہوئی آپ کے والد کا نام حضرت سید قربان علی بن سید سلامت علی اور والدہ کا نام بی بی سکینہ بنت شیر علی ہے آپ حسینی سادات میں سے ہیں ابھی آپ دو برس کے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تین سال کی عمر قلیل میں آپ والدہ کے آنچل کی ٹھنڈی ہواؤں سے بھی محروم ہوگئے اس کے بعد آپ کی پرورش آپ کی دادی حیات النشا نے کی آپ نے اپنی زندگی میں کئی ملکوں کے سفر کئے تقریباُ 10 سال تک مسلسل دورے پر رہے اسی دوران آپ نے دس مرتبہ حج بیت اللہ شریف کی زیارت کی آپ نے اپنی زندگی نہایت ہی سادہ طور پر گزاری بے شمار کرامتین بھی وقوع میں آئیں آپ کا وصال پر ملال یکم صفر المظفر 1323ہجری مطابق 6 اپریل 1905ء کو ہوا آپ کی مزار انور دیوا ضلع بارہ بنکی میں صبح و شام اپنی رونقیں لٹانے میں مصروف ہے اس موقع پر فاتحہ خوانی ہوئی اور دعا کی گئی پھر حاضرین میں شیرنی تقسیم ہوئی شرکاء میں حافظ محمد عرفان رضا قادری،محمد سلمان وارثی،الحاج محمد حسان ازہری،محبوب غفران ازہری،محمد ندیم،محمد نصیر وغیرہ لوگ موجود تھے!


No comments:

Post a Comment