کورونا کی وجہ سے پچھلے دو سالوں میں صحافیوں کیلئے راہیں مشکل ہوئی ہیں :(پی آئی بی ڈائریکٹر)منیش دیسائی

پترکار وکاس فاونڈیشن کی جانب سے حج ہاوس میں منعقدہ سیمینار میں پی آئی بی کے ڈائریکٹر منیش دیسائی ،این ڈی ٹی وی کے ابھیشیک شرما ، ادیب و صحافی شمیم طارق ،انوراگ ترپاٹھی ، خلیل زاہد اور سرفراز آرزو کے علاوہ کئی سرکردہ صحافی اور اہم شخصیات کی شرکت

 
ممبئی :۔(نامہ نگار)پترکار وکاس فاونڈیشن کی جانب سے حج ہاوس میں منعقدہ سیمینار میں شمیم طارق نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ دو اہم باتیں بھی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں صحافت کا وقار بہت بری طرح مجروح ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت میں ایسے افراد آگئے ہیں جنہیں دیکھ کر انہیں صحافی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔شمیم طارق نے ہماری بے خبری کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کئی اہم معاملات ظہور ہوجاتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر بے خبر رہتے ۔ اس دور میں جب سے صحافت زوال پذیر ہوئی ہے تب سے ہماری بے خبری میں اضافہ ہوا اور صحافت بے وقار ہوئی ہے۔
 سیمینار سے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی )کے ڈائریکٹر منیش دیسائی نےکہا کہ پچھلے دو سالوں میں جب سے کورونا وائرس کا انفیکشن کی لہر چلی ہے تب سے حالات بہت بدل چکے ہیں اور صحافیوں کیلئے بھی راہیں مشکل ہوئی ہیں لیکن ایک بات میں اور کہنا چاہوں گا کہ آج پرنٹ میڈیا کے تعلق سے جو بات یہاں کہی گئی کہ مستقبل میں جرنلزم زندہ رہہ سکے گا اس پر مجھے شک ہے تو میں سینئر صحافی خلیل زاہد صاحب کے اس شک کو دور کرتے ہوئے پوری امید سے کہہ رہا ہوں کہ جرنلزم ہر وقت زندہ رہے گا اور پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے صحافت کو زندہ رکھنے کیلئے جو بھی مسئلہ ہو گا اسے دور کیا جائے گا ۔مذکورہ باتیں کہتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آج سب کچھ ورچوول ہو گیا ہے اب ہم سب کچھ اپنے کمپیوٹر پر دیکھ لیتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر صحافی آئینہ صاف رکھے اور جس طرح پہلے صحافی اسے مشن کے طور پر کرتے تھے لیکن اب کچھ لوگ صحافت کمیشن کے طور پر کرتے ہیں اسے روکنے کی ضرورت ہے اور صحافی آئینہ صرف سرکار کو ہی نہیں دکھائے بلکہ عوام کو بھی دکھائے کہ ان سے کہاں غلطی ہو رہی ہے ۔ پی آئی بی کے ڈائریکٹر منیش دیسائی نے پی آئی بی کی جانب سے جو سہولیات سرکار کی طرف سے صحافیوں کو دی جا رہی ہیں اس کی معلومات دیتے  ہوئے بتایا کہ پہلے صرف سرکار سے تصدیق شدہ صحافیوں کو ہی کسی بیماری کے وقت پانچ لاکھ روپیہ تک کی مدد کی جاتی تھی لیکن ۲۰۱۹؍سے سرکار سے بغیر تصدیق شدہ صحافی جنہوں نے پانچ سال صحافت کے شعبہ سے جڑے ہیں انہیں بھی پی آئی بی کی جانب سے سرکار کی اسکیم سے مدد پہنچائی جا رہی ہے ۔
 نوبھارت ٹائمز کے سینئر جرنلسٹ انوراگ ترپاٹھی نے کہا کہ اب وہ دور آ گیا ہے جب صحافیوں کیلئے جینا مشکل ہو گیا ہے اورجو حالات پیدا ہوئے ہیں اس کیلئے ہم سب ذمہ دار ہیں کیونکہ ایک وقت تھا جب صحافی کوئی خبر لکھتا تھا تو بے باک اور نڈر ہو کر لکھتاتھا جس کا سماج پر اثر پڑتا تھا لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج وہ ماحول بدل گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج عام آدمی کے بارے میں لکھنا ہی بند ہو گیا ہے ۔ انوراگ ترپاٹھی نے مزید کہا کہ ٹرینوں میں عام لوگوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے جب کوئی سفر کرتا ہے تو اپنی جیب میں ۲۶۰؍روپیہ رکھ کر چلتا ہےاس مسئلہ کی طرف کسی اخبار والے نے توجہ نہیں دیا ۔
این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی ابھیشیک شرما نے کہا کہ آج این ڈی ٹی وی عوام کی آواز بن کر ابھرا ہے لیکن اس کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑ رہا ہے مودی سرکار نے سب سے پہلے این ڈی ٹی وی پر ہی چھاپہ مروایا تھا ۔ابھیشیک شرما نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا رشتہ قومی دھارے سے کیسے ٹوٹا ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کی شروعات عراق جنگ سے شروع ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ آج صحافت کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم کسی نہ کسی کے ساتھ جڑ گئے ہیں اسی وجہ سے Embeded jurnalismشروع ہوا ہے اور ہم جس سے جڑ گئے ہیں صرف اسی کی خبروں کی جانب توجہ دیتے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسے نکالنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے ۔
سینئر صحافی اور اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر خلیل زاہد نے صحافت کے زندہ رہنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ پاوں گا کہ مستقبل میں صحافت بالخصوص پرنٹ میڈیا زندہ رہیں گے یا نہیں اور جب ہم اخبار نکالتے تھے یا اخبار سے جڑے ہوئے تھے تو آفس میں بیٹھ کر رپورٹنگ نہیں کرتے تھے بلکہ میں نے کشمیر میں دہشت گردوں کے اڈے پر جا کر رپورٹنگ کی نہ کہ کسی سیاحتی مقام پر گھوم کر چلا آیا اس کے علاوہ جب عراق میں جنگ چل رہی تھی تب بھی میں وہاں محاذ پر تھا اور لائیو رپورٹنگ کر رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جرنلسٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کو سامنے لائے لیکن عجیب حالات ہیں خدا محفوظ رکھے ۔
سینئر صحافی اور روزنامہ ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے صحافیوں کو درپیش مسائل کو پیش کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ آج بھی ٹرینوں میں کم از کم صحافیوں تک کو بھی سفر کی اجازت نہیں مل رہی ہے اس لئے جس طرح کی رپورٹنگ ہونی چاہیئے وہ نہیں ہو پا رہی ہے اور پہلے صحافیوں کی آواز کو قبول کیا جاتا تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں کیونکہ صحافیوں کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو چکا ہے اس لئے ہمیں یہ سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
پروگرام کی نظامت اردو گگن کے مالک و مدیر مثیر انصاری نے بہترین طریقے سے کی اور ہر مقرر کو بلانے کے وقت اسے شعر کہہ کر مدعو کیا ۔ پروگرام کے اغرض و مقاصد پترکار وکاس فاونڈیشن کے صدر یوسف رانا نے پیش کی ۔ پروگرام میں شہر بھر میں سماجی خدمات کرنے والوں کے علاوہ طبی خدمات کے شعبہ میں سرگرم ڈاکٹروں کو شال پہنا کر مومنٹو پیش کیاگیا۔ رسم شکریہ ہارون افروز نے ادا کیا ۔


No comments:

Post a Comment