لٹریرئین کے زیر اہتمام مشاعرہ و سیمینار کا انعقاد
فلسفہ ہستی میں مختار احمد کی بصیرت اور ژرف نگاہی کے جلوے بہ کثرت نظر آتے ہیں۔ جاوید ساحل


کانپور۔ ادبی ادارہ لٹریرئن کے زیر اہتمام یاد حیدر جعفری سید کے تحت مشاعرو سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں صدارت جناب ناظر صدیقی کی رہی اور نظامت قاری اختر نے کی۔اس موقع پر حیدر جعفری سید کی فن و شخصیت پر اورمختار احمد کی کتاب فلسفہ ہستی پر مقالے بھی پیش کئے گئے۔ پروگرام کی شروعات اللہ کی حمد و ثنا سے ہوئی بعدہ ¾ فلسفہ ہستی کی رسم اجرا بدست جناب یحیٰ فریدی ہوئی اور ادارے کی جانب سے مختار احمد صاحب کو لٹریرئین اوارڈ ۲۰۱۷سے نوازا گیا ۔ مہمان خصوصی حبیب الرحمٰن جعفری تھے اور مہمان اعزازی جناب جرجیس رضاو یحیٰ فریدی صاحب تھے۔ حیدر جعفری سید پر مقالہ پیش کرتے ہوئے عشرت ظفر نے کہا کہ یادش بخیر یار مہرباں حیدر جعفری سید بھی ہم سے جدا ہو گئے ۔ مرحوم سے میر ی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ معروف صحافی خورشید پرویز کے ساتھ مل کر ہفت روزہ جلتے دیپ نکالا کرتے تھے ۔ انھوں نے بروسوں پہلے افسانہ و تنقید سے لکھنے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی صرف تراجم کا کام اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور اس میدان میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ۔جاوید ساحل نے کہا کہ حیدر جعفری سید اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ۔تراجم کے میدان میں انھیں محمد حسن عسکری ، عنایت اللہ ، اختر حسین رائے پوری اور مظہر الحق علوی کی فہرست میں رکھا جائے گا وہ ان لوگوں سے کسی طرح کم تر نہیں تھے۔ مختار احمد کی تصنیف فلسفہ ہستی پر مقالہ پیش کرتے ہوئے جاوید ساحل نے کہا کہ مختار احمد صاحب نے فلسفہ ہستی کے عنوان جو سے بصیرت افروز کتاب تصنیف کی ہے وہ کانپور کی ادبی و علمی تاریخ میں کسی طرح بھی فراموش نہیں کی جاسکتی اس بصیرت افروز کتاب میں رموز حیات و حقائق کائنات کی جامع اور اعلیٰ تشریح و تفسیر پیش کی گئی ہے اور ایسے ایسے دقیق و معنی آفرینی نکتے پیش کئے گئے ہیں جو طالب علمان ادب ہی نہیں بلکہ تمام ارباب دانش و بینش کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ اس میں جو عنوانات انھوں نے قائم کئے ہیں وہ فلسفہ اس بحر بے کنار میں اجمالی حیثیت رکھتے ہیں لیکن مختار احمد صاحب کی بصیرت اور ژرف نگاہی کے جلوے بہ کثرت نظر آتے ہیں یہ ایک تاریخی دستاویز ہے اورمیرے خیال سے اس موضوع پر یہ واحد کتاب ہے۔ان کے شاگرد رشید ہارون اعجاز نے بھی اپنے تاثرات پیش کئے ۔ مشاعرے میں جو شعر پسند کئے گئے وہ درج ذیل ہیں
وہ آگ ہے شباب کہ شبنم کے باوجود
پھولوں کا جسم چھو لے تو دست صبا جلے
ناظر صدیقی
تم پتھر ہو میں تنکا ہوں میں خوار خراب سہی لیکن
پتھر تو غذا ہیں پانی کی تنکے غرقاب نہیں ہوتے
عشرت ظفر
دیکھتا ہوں جو کبھی رنگ شفق جلوہ ¿ گل
ان کی رنگینی ¿ داماں کا خیال آتا ہے
شاعر فتحپوری
ہم نے محبت میں زباں تک نہیں کھولی
معلوم نہیں کیوں ترے ماتھے پہ شکن ہے
معیدبیتاب
کرم کی آس ہم ان سے لگائے بیٹھے ہیں
جو آستینوں میں خنجر چھپائے بیٹھے ہیں
وسیم کانپوری
خطائیں کر کے کہاں اعتراف کرتا ہے
ہے گرد چہرہ پہ شیشے کو صاف کرتا ہے
حاجی ارشد کانپوری
دل سمجھتا ہی نہیں ہے لاکھ سمجھاتا ہوں میں
اس کے گھر کانٹوں پہ چل کر کیوں چلا جاتا ہوں میں
عتیق فحپوری
تمام لفظ و معنی نثار ہےں تم پر
میری کتاب محبت کا انتخاب ہو تم
حافظ ہارون اعجاز
چپ رہنا بھی ایک ہنر ہے چپ رہ کر اقرار کرو
ہونٹ جہاں پر کام نہ آئے آنکھوں سے اظہار کرو
نورین فیض آبادی
سنسان سی راہیں تو ہیں ویران مناظر
وہ جھیل وہ سب منظر و کہسار ہےں چپ سے
سہیل کانپوری
اس موقع پر خاص طور سے یحیٰ فریدی ڈاکٹر اقبال انصاری ، نور الھدیٰ ،فخر الدین ، فرحان ، نفیس الحسن ، اعجاز رشید، رئیس احمد، منشی رئیس ، خان خالد ظفر، خان آصف جمال، عدیل خان، اشتیاق حسین وغیرہ موجود تھے۔

No comments:

Post a Comment